دو سانسوں کی گہرائی میں
جہاں لہو
بے حد بھیتر کے، بالکل ساکت
میدانوں میں
چاند کی ہر رنگت بہتا ہے
وہاں پلی
اک ننگی ناری
بے حد بھیتر کی رکھوالی
چاندی جیسے لہو کو اپنے
بدن میں بھی تنہا پاتی ہے،
شنوائی سے دور ہمیشہ
شنوائی کا لب ہوتا ہے
ننگی ناری
دو سانسوں کے بے حد بھیتر
سانس کے بن میں
گھبراتی ہے
چاند ہمیشہ سے بہتا ہے
سانس ہمیشہ ہی جاری ہے
رات نگاہوں کے اندر بھی
باہر بھی! اک بیداری ہے

نظم
دو سانسوں کی گہرائی میں
صلاح الدین محمود