تیرگی کے سیاہ غاروں سے
شہپروں کی صدائیں آتی ہیں
لے کے جھونکوں کی تیز تلواریں
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں آتی ہیں
برف نے جن پہ دھار رکھی ہے
ایک میلی دکان تیرہ و تار
اک چراغ اور ایک دوشیزہ
یہ بجھی سی ہے وہ اداس سا ہے
دونوں جاڑوں کی لمبی راتوں میں
تیرگی اور ہوا سے لڑتے ہیں
تیرگی اٹھ رہی ہے میداں سے
فوج در فوج بادلوں کی طرح
اور ہواؤں کے ہاتھ ہیں گستاخ
توڑے لیتے ہیں ننھے شعلے کو
نوچے لیتے ہیں میلے آنچل کو
لڑکی رہ رہ کے جسم ڈھانپتی ہے
شعلہ رہ رہ کے تھر تھراتا ہے
ننگی بوڑھی زمین کانپتی ہے
تیرگی اب سیہ سمندر ہے
اور ہوا ہو گئی ہے دیوانی
یا تو دونوں چراغ گل ہوں گے
یا کریں گے وہ شعلہ افشانی
پھونک ڈالیں گے تیرگی کی متاع
پر مجھے اعتماد ہے ان پر
گو غریب اور بے زبان سے ہیں
دونوں ہیں آگ دونوں ہیں شعلہ
دونوں بجلی کے خاندان سے ہیں
نظم
دو چراغ
علی سردار جعفری