بانسری کی دھن سے چاول کی بالی تک
دن پھیلا ہے
اور درانتی والے ہاتھ میں اس کا دامن
جیسے ملاحوں کے ہاتھ میں جال ہو
یا پھر گھوڑ سوار کے ہاتھ میں اس کی راسیں
دن پھیلا ہے
دہی بلونے کی آواز سے جامن کے پیڑوں تک
چوڑیاں پہننے والے ہاتھ میں اس کا دامن
کھنچتے کھنچتے اوڑھنی بن جائے گا
دن پھیلا ہے
آسمان سے بچے کی ننھی مٹھی تک
رفتہ رفتہ دودھ میں ڈھل جائے گا
دن پھیلا ہے
ریل کی آہنی پٹری پر
اور بھاگ رہا ہے چھوٹے شہروں کی منڈی تک
بھاگتے بھاگتے سرخ انار میں ڈھل جائے گا
دن پھیلا ہے
گیندے کے پھولوں میں
میلے بچوں کی خالی جیبوں میں
دن پھیلا ہے
میری تیری آنکھوں میں
جو رفتہ رفتہ مستقبل کی دھن پہ گایا
اجلے پانیوں جیسا کوئی
گیت بنے گا
نظم
دن پھیلا ہے
اصغر ندیم سید