اور پھر
صبح نے لپیٹے
دبیز خوابوں کے
نرم بستر
دن کی دکھتی رگوں میں اترے
شدید مایوسیوں کے
نشتر
سمٹ کے بیٹھے
الم کی ٹہنی پہ
پر بریدہ
شکستہ پا
آرزو کے طائر
وفا کے آنگن میں
ناتواں
خستہ حال
امیدوں کی سانس اکھڑی
اور دیوار و در پہ
منڈلائے
کینہ خو
نفرتوں کے دل چر
شکستہ لمحوں کے کارواں
زیست کے
شعلہ بار صحرا میں
کاسۂ درد لے کے نکلے
کہ کوئی چشمہ ملے
تو روح کی تشنگی مٹائیں
وگرنہ بڑھتے رہیں
آرزو میں
نظم
دن کا کرب
زاہدہ زیدی