EN हिंदी
Dimensions | شیح شیری
Dimensions

نظم

Dimensions

تابش کمال

;

وہی بہار و خزاں ہے مجھ میں بھی
مجھ سے باہر بھی

(آدمی سے الگ نہیں ہوں)
شگوفے پھوٹیں تو خون میں گیت بولتے ہیں

کبھی کبھی خار کی کھٹک ٹیس بن کے ہونٹوں سے جھانکتی ہے
نجانے کتنے ہی گیت تھے جو بہار سے پہلے

شاخ کی رگ میں جی رہے تھے
جڑوں کا بخل ان کو کھا گیا ہے

یہ خار، سوتیلے بیٹے شاخوں کے
ان تک آیا نہیں ہے نم

پھر بھی جی رہے ہیں
(چمکتے سورج کا سارا سچ ان کے بطن میں ہے)

تپش کی شدت کو پی کے سوکھے سڑے ہوئے ہیں
پہ جی رہے ہیں

مجھے خزاں اور بہار کے رابطوں میں جینا ہے
پھول کا التفات کانٹے کے تلخ طعنے

مرے حوالے ہیں
جڑ کا نم، آفتاب کی تب

مرے ہنر میں ہی بولتی ہے
میں کتنی سطحوں پہ جی رہا ہوں

کبھی کوئی پھول مسکرائے
کبھی کوئی خار دل دکھائے

تو مجھ تک آنا
یہ نظم دونوں کا ماجرا ہے