دلی! تری چھاؤں بڑی قہری
مری پوری کایا پگھل رہی
مجھے گلے لگا کر گلی گلی
دھیرے سے کہے'' تو کون ہے ری؟''
میں کون ہوں ماں تری جائی ہوں
پر بھیس نئے سے آئی ہوں
میں رمتی پہنچی اپنوں تک
پر پریت پرائی لائی ہوں
تاریخ کی گھور گپھاؤں میں
شاید پائے پہچان مری
تھا بیج میں دیس کا پیار گھلا
پردیس میں کیا کیا بیل چڑھی
نس نس میں لہو تو تیرا ہے
پر آنسو میرے اپنے ہیں
ہونٹوں پر رہی تری بولی
پر نین میں سندھ کے سپنے ہیں
من ماٹی جمنا گھاٹ کی تھی
پر سمجھ ذرا اس کی دھڑکن
اس میں کارونجھر کی سسکی
اس میں ہو کے ڈالتا چلتن!
ترے آنگن میٹھا کنواں ہنسے
کیا پھل پائے مرا من روگی
اک ریت نگر سے موہ مرا
بستے ہیں جہاں پیاسے جوگی
ترا مجھ سے کوکھ کا ناتہ ہے
مرے من کی پیڑا جان ذرا
وہ روپ دکھاؤں تجھے کیسے
جس پر سب تن من وار دیا
کیا گیت ہیں وہ کوہیاروں کے
کیا گھائل ان کی بانی ہے
کیا لاج رنگی وہ پھٹی چادر
جو تھرکی تپت نے تانی ہے
وہ گھاؤ گھاؤ تن ان کے
پر نس نس میں اگنی دہکی
وہ باٹ گھری سنگینوں سے
اور جھپٹ شکاری کتوں کی
ہیں جن کے ہاتھ پر انگارے
میں ان بنجاروں کی چیری
ماں ان کے آگے کوس کڑے
اور سر پہ کڑکتی دوپہری
میں بندی باندھوں کی باندی
وہ بندی خانے توڑیں گے
ہے جن ہاتھوں میں ہاتھ دیا
سو ساری سلاخیں موڑیں گے
تو سدا سہاگن ہو ماں ری!
مجھے اپنی توڑ نبھانا ہے
ری دلی چھو کر چرن ترے
مجھ کو واپس مڑ جانا ہے
نظم
دلی تری چھاؤں…
فہمیدہ ریاض