دلی سے واپسی
رخصت اے دلی تری محفل سے اب جاتا ہوں میں
نوحہ گر جاتا ہوں میں نالہ بہ لب جاتا ہوں میں
یاد آئیں گے مجھے تیرے زمین و آسماں
رہ چکے ہیں میری جولاں گاہ تیرے بوستاں
تیرا دل دھڑکا چکے ہیں میرے احساسات بھی
تیرے ایوانوں میں گونجے ہیں مرے نغمات بھی
رشک شیراز کہن ہندوستاں کی آبرو
سر زمین حسن و موسیقی بہشت رنگ و بو
معبد حسن و محبت بارگاہ سوز و ساز
تیرے بت خانے حسیں تیرے کلیسا دل نواز
ذکر یوسف کا تو کیا کیجے تری سرکار میں
خود زلیخا آ کے بکتی ہے ترے بازار میں
جنتیں آباد ہیں تیرے در و دیوار میں
اور تو آباد خود شاعر کے قلب زار میں
محفل ساقی سلامت بزم انجم برقرار
نازنینان حرم پر رحمت پروردگار
یاد آئے گی مجھے بے طرح یاد آئے گی تو
عین وقت مے کشی آنکھوں میں پھر جائے گی تو
کیا کہوں کس شوق سے آیا تھا تیری بزم میں
چھوڑ کر خلد علی گڑھ کی ہزاروں محفلیں
کتنے رنگیں عہد و پیماں توڑ کر آیا تھا میں
دل نوازان چمن کا چھوڑ کر آیا تھا میں
اک نشیمن میں نے چھوڑا اک نشیمن چھٹ گیا
ساز بس چھیڑا ہی تھا میں نے کہ گلشن چھٹ گیا
دل میں سوز غم کی اک دنیا لیے جاتا ہوں میں
آہ تیرے میکدے سے بے پیے جاتا ہوں میں
جاتے جاتے لیکن اک پیماں کئے جاتا ہوں میں
اپنے عزم سرفروشی کی قسم کھاتا ہوں میں
پھر تری بزم حسیں میں لوٹ کر آؤں گا میں
آؤں گا میں اور بہ انداز دگر آؤں گا میں
آہ وہ چکر دئے ہیں گردش ایام نے
کھول کر رکھ دی ہیں آنکھیں تلخیٔ آلام نے
فطرت دل دشمن نغمہ ہوئی جاتی ہے اب
زندگی اک برق اک شعلہ ہوئی جاتی ہے اب
سر سے پا تک ایک خونیں راگ بن کر آؤں گا
لالہ زار رنگ و بو میں آگ بن کر آؤں گا
نظم
دلی سے واپسی
اسرار الحق مجاز