دل وہ صحرا تھا
کہ جس صحرا میں
حسرتیں
ریت کے ٹیلوں کی طرح رہتی تھیں
جب حوادث کی ہوا
ان کو مٹانے کے لیے
چلتی تھی
یہاں مٹتی تھیں
کہیں اور ابھر آتی تھیں
شکل کھوتے ہی
نئی شکل میں ڈھل جاتی تھیں
دل کے صحرا پہ مگر اب کی بار
سانحہ گزرا کچھ ایسا
کہ سنائے نہ بنے
آندھی وہ آئی کہ سارے ٹیلے
ایسے بکھرے
کہ کہیں اور ابھر ہی نہ سکے
یوں مٹے ہیں
کہ کہیں اور بنائے نہ بنے
اب کہیں
ٹیلے نہیں
ریت نہیں
ریت کا ذرہ نہیں
دل میں اب کچھ نہیں
دل کو صحرا بھی اگر کہئے
تو کیسے کہئے
نظم
دل
جاوید اختر