EN हिंदी
دل جاری ہے | شیح شیری
dil jari hai

نظم

دل جاری ہے

اصغر ندیم سید

;

اے دوست! کبھی تو آ کے مل
یہ دل تیرے لیے جاری ہے

دل جاری ہے
دل آٹھ پہر سے جاری ہے

جیسے کوئی دریا ساون میں
جیسے کوئی برکھا جاڑے میں

ایسے میں بدری کاری ہے
دل جاری ہے

دل آٹھ پہر سے جاری ہے
کبھی دل دو گنا ہو جاتا ہے

جب تیرا درد سماتا ہے
ہر سانس میں رس مل جاتا ہے

تیرے ہونے کا
تیرے نیند نگر میں آنے کا

دل جاری ہے
دل ازلوں ازل سے جاری ہے

تجھے نیند سمجھ کے سو لوں میں
اور اوڑھ کے جیون کر لوں میں

یہ نیند ادھوری ہوتی ہے
کہیں سپنے میں کھل جاتی ہے

تجھے کیسے اوڑھوں کمبل میں
تجھے کیسے پہنوں جاڑے میں

تجھے کیسے بیتوں برسوں میں
جو بیت چکا وہ بادل تھا

اب بیتنا چاہوں لباسوں میں
تجھے اوڑھنا چاہوں کپاسوں میں

کبھی آ کے مل
ایسے کہ اچانک دھوپ کھلے

ایسے کہ اچانک شام ڈھلے
ایسے کہ اچانک درد اٹھے

میری نس نس میں
اور تو اس درد میں شامل ہو