پہلے تو حسن عمل حسن یقیں پیدا کر
پھر اسی خاک سے فردوس بریں پیدا کر
یہی دنیا کہ جو بت خانہ بنی جاتی ہے
اسی بت خانے سے کعبے کی زمیں پیدا کر
روح آدم نگراں کب سے ہے تیری جانب
اٹھ اور اک جنت جاوید یہیں پیدا کر
خس و خاشاک توہم کو جلا کر رکھ دے
یعنی آتش کدۂ سوز یقیں پیدا کر
غم میسر ہے تو اس کو غم کونین بنا
دل حسیں ہے تو محبت بھی حسیں پیدا کر
آسماں مرکز تخئیل و تصور کب تک
آسماں جس سے خجل ہو وہ زمیں پیدا کر
دل کے ہر قطرہ میں طوفان تجلی بھر دے
بطن ہر ذرہ سے اک مہر مبیں پیدا کر
بندگی یوں تو ہے انسان کی فطرت لیکن
ناز جس پہ کریں سجدے وہ جبیں پیدا کر
پستئ خاک پہ کب تک تری بے بال و پری
پھر مقام اپنا سر عرش بریں پیدا کر
عشق ہی زندہ و پایندہ حقیقت ہے جگرؔ
عشق کو عام بنا ذوق یقیں پیدا کر
نظم
دل حسیں ہے تو محبت بھی حسیں پیدا کر
جگر مراد آبادی