صدیوں گنگ رہیں دیواریں
اور پھر اک شب جانے کیسے
دیواروں پر لفظوں کے انگارے چمکے
انگاروں نے مل جل کر شعلے بھڑکائے
سارے شہر میں آگ لگی
کاغذ کے ملبوس جلے
کالے ننگے جسموں سے بازار بھرے
آوازوں کے جھکڑ آئے بادل چیخا
آنگن کے بے داغ بدن پر
جلی ہوئی ہڈیوں کے اولے
پتھر بن کر برس پڑے
اگلے دن جب اجلی دھوپ پگھلنے آئی
سب نے دیکھا
دیواروں کے لب نیلے تھے
سب ننگی تھیں
گھٹتے بڑھتے سایوں کی گونگی بھاشا میں
بول رہی تھیں
نظم
دیواریں
وزیر آغا