عجب جادو بھری آنکھیں تھیں اس کی
وہ جب پلکیں اٹھا کر اک نظر تکتی تو آنکھوں کی
سیہ جھیلوں میں
جیسے مچھلیوں کو آگ لگ جاتی
ہزاروں سرخ ڈورے تلملا کر جست بھرتے
آب غم کی قید سے باہر نکلنے کے لیے
سو سو جتن کرتے
مگر مجبور تھے
چاروں طرف آنسو کے گنبد تھے
نمی کے بلبلے تھے
اور اک دیوار گریہ
جو ازل سے تا ابد پھیلی ہوئی تھی
عجب جادو بھری آنکھیں تھیں اس کی
بظاہر آنے والے کو نہ آنے کے لئے کہتی
بباطن چاہتی دیوار کو وہ توڑ کر اس تک پہنچ جائیں
کھڑا ہوں میں پس دیوار گریہ
نمی کے بلبلوں کو اس کی پلکوں پر لرزتے جھلملاتے
دیکھتا ہوں انگلیوں سے چھو بھی سکتا ہوں
مگر دیوار گریہ کو
افق سے تا افق پھیلی ہوئی
شیشے کی اس شفاف چادر کو کبھی اب تک تو کوئی توڑ کر آگے نہیں آیا
میں اک آنسو بھرے لمحے کی سلوٹ
میں کیسے پار کر سکتا ہوں اس کو
نظم
دیوار گریہ
وزیر آغا