EN हिंदी
دیوانہ | شیح شیری
diwana

نظم

دیوانہ

منیب الرحمن

;

کوئی دیوانہ اگر رات گئے روتا ہے
اس کی آواز بہت دور سنائی دے گی

چاہے لوگوں کو سروکار نہ ہو
بے بسی چھائی ہو خاموشی ہو

ہر طرف ایک فراموشی ہو
پھر بھی بے زار نہ ہو

کوئی دیوانہ اگر رات گئے روتا ہے
اس کی آواز بہت دور سنائی دے گی

کوئی سمجھائے وہ کیوں روتا ہے
شاید ان خوابوں کی خاطر جو نہ پورے ہوں گے

یا بدستور ادھورے ہوں گے
کھولتا ہے کبھی تنہائی کے بھاری پردے

روزن در سے ستاروں کو چمکتا دیکھے
باغ نوخاستہ ہر سمت مہکتا دیکھے

اور بنجر پڑے ارمانوں کو سیراب کرے
دیکھو اک بوند گری ٹھہرے ہوئے پانی میں

دائرہ بن گئی بڑھتی ہی گئی
کرب طوفان نہاں موج کے دل سے پوچھو

پھیلتے پھیلتے ساحل سے جو مل جائے گی
کوئی دیوانہ اگر رات گئے روتا ہے

اس کی آواز بہت دور سنائی دے گی