EN हिंदी
دیوالی | شیح شیری
diwali

نظم

دیوالی

آفتاب رئیس پانی پتی

;

رام کے ہجر میں اک روز بھرت نے یہ کہا
قلب مضطر کو شب و روز نہیں چین ذرا

دل میں ارماں ہے کہ آ جائیں وطن میں رگھبر
یاد میں ان کی کلیجے میں چبھے ہیں نشتر

کوئی بھائی سے کہے زخم جگر بھر دیں مرا
خانۂ دل کو زیارت سے منور کر دیں

رام آئیں تو دیے گھی کے جلاؤں گھر گھر
دیپ مالا کا سماں آج دکھاؤں گھر گھر

تیغ فرقت سے جگر پاش ہوا جاتا ہے
دل غم رنج سے پامال ہوا جاتا ہے

داغ ہیں میرے جلے دل پہ ہزاروں لاکھوں
غم کے نشتر جو چلے دل پہ ہزاروں لاکھوں

کہہ رہے تھے یہ بھرت جبکہ سری رام آئے
دھوم دنیا میں مچی نور کے بادل چھائے

عرش تک فرش سے جے جے کی صدا جاتی تھی
خرمی اشک ہر اک آنکھ سے برساتی تھی

جلوۂ رخ سے ہوا رام کے عالم روشن
پر امیدوں کے گلوں سے ہوا سب کا دامن

موہنی شکل جو رگھبر کی نظر آتی تھی
آنکھ تعظیم سے خلقت کی جھکی جاتی تھی

مدتوں بعد بھرت نے یہ نظارہ دیکھا
کامیابی کے فلک پر تھا ستارہ چمکا

دل خوشی سے کبھی پہلو میں اچھل پڑتا تھا
ہو مبارک یہ کبھی منہ سے نکل پڑتا تھا

ہوتے روشن ہیں چراغ آج جہاں میں یکساں
گل ہوا آج ہی پر ایک چراغ تاباں

ہے مراد اس سے وہ بھارت کا چراغ روشن
نام ہے جس کا دیانند جو تھا فخر وطن

جس دیانند نے بھارت کی پلٹ دی قسمت
جس دیانند نے دنیا کی بدل دی حالت

جس دیانند نے گلزار بنائے جنگل
جس دیانند نے قوموں میں مچا دی ہلچل

آج وہ ہند کا افسوس دلارا نہ رہا
غم نصیبوں کے لئے کوئی سہارا نہ رہا

یاد ہے اس کی زمانے میں ہر اک سو جاری
اس کی فرقت کی لگی تیغ جگر پر کاری

دل یہ کہتا ہے کہ اس وقت زبانیں کھولیں
آؤ مل مل کے دیانند کی ہم جے بولیں