EN हिंदी
دیوالی | شیح شیری
diwali

نظم

دیوالی

قتیل شفائی

;

در و دیوار پر چھائی ہے اداسی غم کی
محو حیرت ہے خوشی دیدۂ حیراں کی طرح

کوئی جھونکا کوئی آہٹ کوئی آواز نہیں
رات ویراں ہے کسی شہر خموشاں کی طرح

دن ڈھلے دیکھ لیا تھا کوئی اڑتا بادل
کنمناتی ہے فضا موسم باراں کی طرح

دور پردیس کی راہوں میں بھٹکتے راہی
دل میں پھر یاد تری آئی ہے مہماں کی طرح

وہ سر شام در و بام پہ جلتے دیپک
کیا مری طرح تجھے یاد نہیں آتے ہیں

روشنی میں وہ نہائے ہوئے اجلے منظر
کیا نگاہوں میں تری آج بھی لہراتے ہیں

کیا وہ بیتے ہوئے پر نور چہکتے لمحے
آج بھی دل میں ترے گیت کوئی گاتے ہیں

کیا ترے خواب غم حال کے ویرانے میں
اب بھی ماضی کا فسانہ کوئی دہراتے ہیں

وہ اجالے جو تری طرح مجھے بھول گئے
دور سے اب مری فریاد نہیں سن سکتے

دل کے تاروں کو بہت جمع کیا ہے میں نے
وہ مگر نغمۂ احساس نہیں بن سکتے

مری آواز کو جذبات کی دیوار کے پار
سن تو سکتے ہیں مگر سر کو نہیں دھن سکتے

میں جو روؤں بھی تو یہ وقت کے اندھے ساتھی
کسی بکھرے ہوئے موتی کو نہیں چن سکتے

دیپ مالا کی یہ بے چین بلکتی ہوئی رات
اس کے دامن میں مرے اشک رواں پلتے ہیں

ہم سفر کوئی نہیں ہے مری تنہائی کا
چند سائے ہیں جو ہم راہ مرے چلتے ہیں

ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں میں ہے ساون کی جھڑی
اور دل میں مرے یادوں کے شجر پلتے ہیں

دیکھ میں نے بھی منائی ہے یہاں دیوالی
مری پلکوں پہ بھی اشکوں کے دیے جلتے ہیں