EN हिंदी
دیدۂ تر | شیح شیری
dida-e-tar

نظم

دیدۂ تر

بلراج کومل

;

تم مرے کوئی نہیں
اور یہ ننھی سی جاں

کون ہے؟ کوئی نہیں
میں بھی تم دونوں کو شاید

اجنبی لگتا ہوں شاید کچھ نہیں
عین ممکن ہے کہ روز حشر کے امکان سے ہی قبل ہم

اپنے اپنے راستوں پر
روز و شب چلتے ہوئے

ریگ نا معلوم کے طوفان میں
ایسے بچھڑیں

پھر کبھی نہ مل سکیں
یہ جو لمحہ بخت میں لکھا ہے ہم سب کے خدا نے

قرب کا، رنگ تمازت کا، لہو کے رنگ کا
کاش اس لمحے میں ہم

بند کر لیں اپنی آنکھوں میں حسیں چہرے شگوفے
قہقہے، روشن ستارے

لہلہاتے جسم
موج برق شعلوں کا تموج

موت کے، تخلیق کے اسرار سب
خانۂ موجود ان سب کے لیے

اب ہمارے دیدۂ تر کے سوا کچھ بھی نہیں
رسم رخصت بھی کبھی ہوگی مگر

لمحۂ بے نام کی تحویل میں
گھر، یہ سچ ہے، مختصر ہے

اس فنا انجام جلتے مختصر گھر کے سوا کچھ بھی نہیں