EN हिंदी
ڈائری | شیح شیری
Diary

نظم

ڈائری

گلزار

;

نہ جانے کس کی یہ ڈائری ہے
نہ نام ہے، نہ پتہ ہے کوئی:

''ہر ایک کروٹ میں یاد کرتا ہوں تم کو لیکن
یہ کروٹیں لیتے رات دن یوں مسل رہے ہیں مرے بدن کو

تمہاری یادوں کے جسم پر نیل پڑ گئے ہیں''
ایک اور صفحے پہ یوں لکھا ہے:

''کبھی کبھی رات کی سیاہی،
کچھ ایسی چہرے پہ جم سی جاتی ہے

لاکھ رگڑوں،
سحر کے پانی سے لاکھ دھوؤں

مگر وہ کالک نہیں اترتی
ملو گی جب تم پتہ چلے گا

میں اور بھی کالا ہو گیا ہوں
یہ حاشیے میں لکھا ہوا ہے:

''میں دھوپ میں جل کے اتنا کالا نہیں ہوا تھا
کہ جتنا اس رات میں سلگ کے سیہ ہوا ہوں''

مہین لفظوں میں اک جگہ یوں لکھا ہے اس نے:
''تمہیں بھی تو یاد ہوگی وہ رات سردیوں کی

جب اوندھی کشتی کے نیچے ہم نے
بدن کے چولھے جلا کے تاپے تھے، دن کیا تھا

یہ پتھروں کا بچھونا ہرگز نہ سخت لگتا جو تم بھی ہوتیں
تمہیں بچھاتا بھی اوڑھتا بھی''

اک اور صفحے پہ پھر اسی رات کا بیاں ہے:
''تم ایک تکیے میں گیلے بالوں کی بھر کے خوشبو،

جو آج بھیجو
تو نیند آ جائے، سو ہی جاؤں''

کچھ ایسا لگتا ہے جس نے بھی ڈائری لکھی ہے
وہ شہر آیا ہے گاؤں میں چھوڑ کر کسی کو

تلاش میں کام ہی کے شاید:
''میں شہر کی اس مشین میں فٹ ہوں جیسے ڈھبری،

ضروری ہے یہ ذرا سا پرزہ
اہم بھی ہے کیوں کہ روز کے روز تیل دے کر

اسے ذرا اور کس کے جاتا ہے چیف میرا
وہ روز کستا ہے،

روز اک پیچ اور چڑھتا ہے جب نسوں پر،
تو جی میں آتا ہے زہر کھا لوں

یا بھاگ جاؤں''
کچھ اکھڑے اکھڑے، کٹے ہوئے سے عجیب جملے،

''کہانی وہ جس میں ایک شہزادی چاٹ لیتی ہے
اپنی انگشتری کا ہیرا،

وہ تم نے پوری نہیں سنائی''
''کڑوں میں سونا نہیں ہے،

ان پر سنہری پانی چڑھا ہوا ہے''
اک اور زیور کا ذکر بھی ہے:

''وہ ناک کی نتھ نہ بیچنا تم
وہ جھوٹا موتی ہے، تم سے سچا کہا تھا میں نے،

سنار کے پاس جا کے شرمندگی سی ہوگی''
یہ وقت کا تھان کھلتا رہتا ہے پل بہ پل،

اور لوگ پوشاکیں کاٹ کر،
اپنے اپنے انداز سے پہنتے ہیں وقت لیکن

جو میں نے کاٹی تھی تھان سے اک قمیض
وہ تنگ ہو رہی ہے!''

کبھی کبھی اس پگھلتے لوہے کی گرم بھٹی میں کام کرتے،
ٹھٹھرنے لگتا ہے یہ بدن جیسے سخت سردی میں بھن رہا ہو،

بخار رہتا ہے کچھ دنوں سے
مگر یہ سطریں بڑی عجب ہیں

کہیں توازن بگڑ گیا ہے
یا کوئی سیون ادھڑ گئی ہے:

''فرار ہوں میں کئی دنوں سے
جو گھپ اندھیرے کی تیر جیسی سرنگ اک کان سے

شروع ہو کے دوسرے کان تک گئی ہے،
میں اس نلی میں چھپا ہوا ہوں،

تم آ کے تنکے سے مجھ کو باہر نکال لینا
''کوئی نہیں آئے گا یہ کیڑے نکالنے اب

کہ ان کو تو شہر میں دھواں دے کے مارا جاتا ہے نالیوں میں''