یہ زندگی
گلوں کی ایک سیج ہے
نہ خار و خس کا ڈھیر ہے
بس ایک امتحان کا
لطیف سا سوال ہے
سوال کا جواب تو محال ہے
بس اتنا ہی سمجھ لیں ہم
کہ زیست دھوپ چھانو ہے
کہیں پہ یہ نشیب تو کہیں پہ یہ فراز ہے
جہاں بٹھائے یہ ہمیں
وہیں پہ ہم بساط ذات ڈال کر
کرن کرن سے
کچھ نہ کچھ حرارتیں نچوڑ لیں
تمازتیں سمیٹ لیں کچھ اس طرح
کہ چھانو کی عنایتوں بشارتوں
کا اک یقیں بھی ساتھ ہو!
نظم
دھوپ چھانو کے درمیاں
ارشد کمال