اس نے مجھے دھوپ بھری اجرک پیش کی
میں نے اس دھوپ کو اپنی زمین پر رکھا
کپاس اور کھجور اگائی
کھجور سے شراب اور کپاس سے اپنی محبوبہ کے لیے
مہین ململ کاتی
ململ نے اس کے بدن کو چھوا
اس پر پھول نکل آئے
شراب کو زمین میں دبایا
اس پر تاڑ کے درخت اگ آئے
اس نے مجھے دھوپ بھری اجرک پیش کی
میں نے اس دھوپ کو اپنے دل پر رکھا
جو سرسوں کا پھول بن گئی
اس پھول سے ایک موسم پیدا ہوا
جس کا نام میں نے عشق اور سخاوت کا موسم رکھ دیا
اس موسم کے بیج سے ایک راستہ
اس کے گھر کی طرف نکلا
اس بیج سے پانچ کبوتر نکلے
بھری ہوئی گاگر والے فقیر کے روضے پر جا کر بیٹھ گئے
اس نے مجھے دھوپ سے بھری اجرک پیش کی
میں نے اسے تمہارے گھر کے زینے پر پھیلا دیا
تاکہ تم دھوپ کی سیڑھیوں سے میرے دل میں اتر سکو
مجھے یاد ہے کبھی نہ کبھی کہیں نہ کہیں
میرا ستارہ تمہارے ستارے کے قریب سے گزرا ہے
اس نے مجھے دھوپ بھری اجرک پیش کی
میں نے اسے سمندر میں پھیلا دیا
ہوا نے اس کا رس چوسا
اور مدہوش ہو کر بادبانوں سے لپٹ گئی
سمندر کے اندر ایک اور سمندر نیند سے جاگا
دونوں ایک دوسرے کے خروش میں
دیر تک اس دھوپ میں آنکھیں موندے لیٹے رہے
اس نے مجھے دھوپ بھری اجرک پیش کی
پھر میں نے وہ اجرک شہباز قلندر کے ایک
فقیر کو دے دی
اس نے مجھے دعا کا ایک بادل دیا
میں جسے اپنے سر پر لئے پھرتا ہوں
نظم
دھوپ بھری اجرک
اصغر ندیم سید