EN हिंदी
دھوپ | شیح شیری
dhup

نظم

دھوپ

آفتاب شمسی

;

کھڑکی کے شیشے سے چھن کر
کمرے میں آ جاتی ہے

میز کی تصویروں کو اپنے
ہاتھوں سے چمکاتی ہے

ساری کتابوں کے چہروں کو
اجلا کرتی جاتی ہے

پھر میرے بستر سے مجھ کو
اٹھنے پر اکساتی ہے

میں روز اپنے خواب ادھورے
چھوڑ کے باہر جاتا ہوں!