دھند کے پرے اک دن
روشنی کے ہالے میں
وہ مجھے نظر آیا
جیسے دیوتا کوئی
منتظر ہو داسی کا
میں نے روبرو ہو کر
اس سے التجا کی تھی
دو گے روشنی اپنی مستعار لینی ہے
ہر طرف اندھیرا ہے
میزبانی کرنی ہے
کچھ خراب حالوں کی
روح کی کثافت کا
دل پہ بوجھ ہے جن کے
چند زخم ایسے ہیں
جو کہ بھر نہ پائیں گے
گر نہیں ملے ان کو
روشنی کے یہ ہالے
میری بات سن کر وہ
مسکرا کے بولا تھا
بے نیاز شہزادی
جان کیوں نہیں لیتیں
روشنی کا روزن تو
صرف تم سے کھلتا ہے
دھندلاتا ہر منظر
اس لیے تو واضح ہے
جھلملاتی یہ کرنیں
تم سے ہی تو پھوٹی ہیں
خود کو جوڑ لو خود سے
روشنی تو تم سے ہے
نظم
دھند کے پار
میمونہ عباس خان