EN हिंदी
دھرتی کا اپہار ملا جب | شیح شیری
dharti ka uphaar mila jab

نظم

دھرتی کا اپہار ملا جب

حنیف ترین

;

خود میں اتر کر میں رویا تھا
باہر منظر

پھوٹ پھوٹ کر اتنا رویا
ہر شے ڈوب گئی تھی

اور میں اس پل
اپنے تن کی کشتی کھیتا

سات سمندر پار گیا تھا
سورج تاروں اور امبر نے

گلے لگا کر
دھرتی کا اپہار دیا تھا

سب کچھ مجھ پر وار دیا تھا