ایک چہل قدمی کے لیے گلی بنی
سمندر کے پاس یہ پھولوں کی کلی بنی
میں بھی بھولے سے یہاں آ جاتا ہوں
میری عمر چلنے پھرنے گھومنے کی نہیں ہے
عورتیں بچے اور دو اک بوڑھے بھی آتے ہیں
میں یوں ہی کچھوے کی چال کی طرح
آہستہ آہستہ آیا تھا
اک جھاڑی کے پیچھے دو سائے ہم آغوش تھے
ایک نے بہ آواز بلند کہا:
کیا تم نے اس بوڑھے کو دیکھا؟
ہنسنے کی آواز آئی
یہ بوڑھا دھرتی کا بوجھ ہے
میں نے سنا مگر چپ چاپ چلتا گیا
اس نے شاید صحیح کہا یہ عمر چلنے پھرنے کی نہیں ہے
مگر میں کیا کروں ڈاکٹر نے مجھے سو قدم چلنے کو کہا ہے
میں شروع سے زندگی میں دھرتی کا بوجھ تھا
میں نے جوانی کرم کتابی بن کے گزاری ہے
میں نے راتوں کو جاگ جاگ کر پڑھا ہے
زندگی میں علم کی جستجو سب کچھ نہیں ہے
یہ مجھے تب معلوم ہوا جب میں دھرتی کا بوجھ بن گیا تھا
نظم
دھرتی کا بوجھ
باقر مہدی