دروازے پہ جو آنکھیں ہیں
آنکھوں میں جو سپنے ہیں
ان سپنوں میں جو مورت ہے
وہ میری ہے
دروازے کے باہر کیا ہے
اک رستہ ہے
جس پر میری یادوں کا شہر بسا ہے
میرا رستہ دیکھنے والی ان آنکھوں کا جال بچھا ہے
مجھے پتا ہے
لیکن ان آنکھوں کو کیسے میں یہ بات بتاؤں
ہر رستہ پہ اتنی بھیڑ چلنا مشکل ہو جاتا ہے
آوازوں کے اس جنگل سے بچنا مشکل ہو جاتا ہے
دکھ کا ایسا لمحہ آتا ہے ہنسنا مشکل ہو جاتا ہے
جب ایسے حالات کھڑے ہوں
قدموں میں زنجیر کی صورت
روشنیوں کے سائے پڑے ہوں
ایسے میں دل ان آنکھوں سے
ایک ہی بات کہے جاتا ہے
دیر سویر تو ہو جاتی ہے
نظم
دیر سویر تو ہو جاتی ہے
الماس شبی