EN हिंदी
دیر ہو گئی | شیح شیری
der ho gai

نظم

دیر ہو گئی

فہیم شناس کاظمی

;

عالم پناہ
خیر سے بے دار ہو گئے

عالم پناہ!....
خیر.....

کہاں آپ چل دیے
رستے تمام بند ہوئے

دیر ہو گئی
اور کیسی دوپہر میں

گھنی رات ہو گئی
فانوس

جھاڑ
قمقمے روشن نہیں ہوئے

اور طاقچوں میں باقی نہیں کوئی بھی چراغ
اور بیگمات حجرے سے باہر نکل پڑیں

اور شاہزادیوں کے سروں پر نہیں ردا
یہ رنگ و روپ

یہ قد و قامت
یہ چشم و گوش

کیا راستے میں فرش بچھانے کو کوئی ہے
کوئی کنیز کوئی بھی خادم نہیں رہا؟

شیرینیٔ لطافت و آرائش حیات
اور کیا ہوئے وہ ناز و نزاکت کے شاہکار

دیوار پر ہے آیت الکرسی کا چوکھٹا
جزدان و جانماز مسہری کے پاس ہے

آنکھیں اٹھا کے دیکھنے والا کوئی نہیں
پہنائے آ کے آپ کو پاپوش کون اب

مسند نشیں جو آپ ہوں یہ وقت وہ نہیں
یہ وقت ہے عجیب

کہ مشکل بڑی ہے یہ
شعرا

مصاحبین
عصا دار و خاصہ دار

میر سپہ
غلام بھی باقی نہیں رہے

جو جنگ ہونے والی تھی آغاز ہو چکی
جو رات ڈھلنے والی تھی

کب کی وہ ڈھل چکی
شاہی محل کے پار تو دنیا بدل گئی

اور اسپ شاہ گام تو سب جاٹ لے گئے
عالم پناہ

شہر تو برباد گیا