میں جینے کی تمنا لے کے اٹھتی ہوں
مگر جب دن گزرتا ہے
سنہری دھوپ کی کرنیں کسی دریا کنارے پر اترتی شام کے بکھرے ہوئے چمکیلے بالوں سے لپٹ کر سونے لگتی ہیں
ہوا بیزار ہو کر پھر تھکے پنچھی کی بانہوں میں سمٹ کر بیٹھ جاتی ہے
زمیں کا شور بھی تب رفتہ رفتہ ماند پڑتا ہے
فلک کے آخری کونے پہ جس دم کچھ سیاہی جھلملاتی ہے
ستارے سرمئی سے آسمانوں کی بچھی چادر پہ ایسے بیٹھ جاتے ہیں
کہ جیسے ڈوبتے سورج کی میت پر سپارے پڑھنے آئے ہوں
تبھی احساس ہوتا ہے کہ گویا زندگی بس ایک دن کی تھی
نظم
ڈک لائن
سیما غزل