ابھرتی ہے مرے ماتھے کی سلوٹ میں
شکن دھاگے کے کھنچنے کی
ادھیڑے جا رہی ہوں
میں بھی دن بھر سے
مجھے جب یاد آتا ہے
کہ میں کتنا الجھتی تھی
مری نانی ہر اک کپڑے کو
چاہے وہ نیا ہی کیوں نہ ہو
اک بار کم سے کم
نہ جب تک اپنے ہاتھوں سے ادھیڑیں
اور سی لیں
تب تلک ان کو سکوں آتا نہ تھا
میں اکثر سوچتی تھی
نقص کیا ہوتا ہے آخر
ہر نئے جوڑے کے سلنے میں
بھلا دھاگے کے پیچھے چھپ کے آخر
کون سے ایسے مسائل ہیں
جنہیں میں پھر ادھیڑے جا رہی ہوں
اور اپنے ہاتھ سے پھر سے سلائی کر کے
اپنے طور اپنے ڈھب سے
اس کپڑے میں
کیسے رنگ بھرتی جا رہی ہوں
اس طرح کچھ پل سفر تو
میری اپنی ذات کے ہم راہ طے پایا
مجھے اس پل میں خود میں
میری ماں نانی مری دادی
ہر اک چہرہ نظر آیا
نظم
دسترس
عنبرین صلاح الدین