EN हिंदी
دستک | شیح شیری
dastak

نظم

دستک

رفیق خیال

;

حالات کے کالے بادل نے
مرے چھت کے چاند کو گھیر لیا

تدبیر ہو ممکن خاک کوئی
کہ باہر رقصاں تاریکی

اور اندر پھیلی تنہائی
دروازے پر دستک دے کر

آلام کی وحشت ہنستی ہے
اور سرگوشی میں کہتی ہے

کہ اب کیسے بچ پاؤ گے
میری تشنہ بے باکی سے

کس سے باتیں کر کے مجھ کو
اب تم دھوکے میں رکھوگے