مجھے دشت تخیل کا سفر کرنا اگر آتا
طواف کعبہ کرتا، زندگی کو سمت مل جاتی
صحیفے دل کے سب بکھرے ہوئے میرے سنور جاتے
غم و آلام میرے بھی،
غبار راہ بن جاتے
مجھے دشت تخیل کا سفر کرنا اگر آتا
تضادات اب جو پیدا ہیں، وہ پیدا ہی نہیں ہوتے
کہیں کنج سکوں مثل مدینہ مجھ کو مل جاتا
مجھے دشت تخیل کا سفر کرنا اگر آتا
جنہیں دشت تخیل کا سفر کرنا بھی آتا ہے
ہوا کے دوش پر اڑتے ہیں مثل گرد آوارہ
گدھوں کا جھنڈ کہ منڈلا رہا ہو جیسے مردوں پر
مجھے دشت تخیل کا سفر کرنا نہیں آتا
نہیں آتا تو اچھا ہے، نہیں آئے تو اچھا ہے
نظم
دشت تخیل کی نفی
کوثر مظہری