رس بھرا لمحہ
نہ جانے کن کٹھن راہوں سے ہو کر
آج میرے تن کے اس اندھے نگر میں
ایک پل مہماں ہوا
رس بھرا لمحہ
سمے کی شاخ سے ٹوٹا
میری پھیلی ہوئی جھولی میں گر کر
آج میرا ہو گیا
یک بیک
قرنوں کے ٹھہرے کارواں نے جھرجھری لی چل پڑا
رس بھرے لمحے کا محمل
اونٹنی کی پشت پر مچلا
سنہری گھنٹیوں نے چیخ کر مجھ سے کہا
تو رہ گیا
نظم
درماندہ
وزیر آغا