اڑتی دیش میں گرد نہیں ہے
تمہیں ذرا بھی درد نہیں ہے
دیش ہے اپنا مانتے ہو نا
دکھ جتنے ہیں جانتے ہو نا
پیڑ ہے ایک پر ڈالیں بہت ہیں
ڈالوں پر ٹہنیاں بہت ہیں
پتے ہیں روزانہ اگتے
پیلے لیکن گرتے رہتے
تم ہو مالی نظر کہاں ہے
چمن کی سوچو دھیان کہاں ہے
کیا تم سے ہر فرد نہیں ہے
تمہیں ذرا بھی درد نہیں ہے
چنا تمہیں ہے کہیں گے قصے
دیش دکھے جب حصے حصے
لوگ پریشاں آگ زنی ہے
اور وچاروں میں بھی ٹھنی ہے
نظریں چرا کر یوں نا بیٹھو
آگے آ کر چکر تو پھینکو
تم چپ ہو سب بول رہے ہیں
پنکھ وہ اپنے تول رہے ہیں
کہے نہ کوئی مرد نہیں ہے
تمہیں ذرا بھی درد نہیں ہے
بڑے بھائی ہو سبق تو سیکھو
چاروں اور ہیں چھوٹے دیکھو
لڑ لڑ کر برباد ہیں سارے
کاٹنا مارنا دھرم بنا رے
وہاں مسجدوں میں بم پھٹتے
دھرم ہے ایک وہ پھر بھی لڑتے
چلے تھے فخر سے سر اونچا تھا
گڑھے تھے حائل کب دیکھا تھا
آج ہوئے کیا دیکھ رہے ہو
چکر گدھ کے دیکھ رہے ہو
ارے کیوں چہرہ زرد نہیں ہے
تمہیں ذرا بھی درد نہیں ہے
ہوش میں آؤ وقت ابھی ہے
رہبر ہو اور سمے یہی ہے
جیت چناؤ فکر سہی ہے
پر ہو کیا گر دیش نہیں ہے
دور دیکھنا جرم کہاں ہے
سیکھنے میں کوئی شرم کہاں ہے
بڑے ہو گر تو بن کے دکھاؤ
کہاں ہے شفقت لے کر آؤ
دھرم کبھی بے درد نہیں ہے
تمہیں ذرا بھی درد نہیں ہے
آج نہیں تو کل سمجھو گے
لٹ جاؤ گے تب سمجھو گے
پیار سے بڑھ کر استر نہیں کچھ
گھٹیا جھوٹ سے وستر نہیں کچھ
بویا جو ہے وہی کاٹو گے
پھر ان کے تلوے چاٹو گے
ہاتھوں میں کشکول رہیں گے
گلے میں اپنے ڈھول رہیں گے
پھر سر اونچا کرتے رہنا
بن جانا پھر دیش کا گہنہ
جاگو ہوا ابھی سرد نہیں ہے
تمہیں ذرا بھی درد نہیں ہے
نظم
درد کی آواز
عزیر رحمان