EN हिंदी
درد کا نام پتہ مت پوچھو | شیح شیری
dard ka nam pata mat puchho

نظم

درد کا نام پتہ مت پوچھو

مصحف اقبال توصیفی

;

درد کا نام پتہ مت پوچھو
درد اک خیمۂ افلاک

اس اقلیم پہ ہے سایہ کناں
تم اسے قطب شمالی کہہ لو

تم جدھر آنکھ اٹھا کر دیکھو
برف ہی برف ہے

اور رات ہی رات
ہم وہ موجود کہ جن میں شاید

زندگی بننے کے آثار ابھی باقی تھے
حشرات ایسے کہ جن کو شاید

روشنی اور حرارت کی ضرورت تھی ابھی
اس اندھیرے میں کہو برف پہ رینگیں کیسے

کوئی بتلاؤ کہ اس رات کے آزار سے نکلیں کیسے
رات ایسی کہ جو ڈھلتی ہی نہیں

برف ایسی کہ پگھلتی ہی نہیں