سرسراہٹ ہے
نہ آہٹ ہے
نہ ہلچل
نہ چبھن
درد چپ چاپ
کسی دھیمی ندی کی صورت
سانس لیتی ہوئی
گانٹھوں میں
اتر آیا ہے
کتنے برسوں کی
ریاضت سے
ہنر مندی سے
ایسے بکھرے ہوئے
ریشوں کو سمیٹا ہے مگر
اور ہر بار
ہر اک بار
بہت جتنوں سے
جسم کو جان سے
جوڑا ہے مگر
بے سبب سانس کی کٹتی ڈوری
کب سے تھامے ہوئے
بیٹھے ہیں مگر
آج نہیں
یا کہیں درد تھمے
اور سکوں مل جائے
یا کوئی گانٹھ کھلے
اور قرار آ جائے
نظم
درد
گلناز کوثر