درخت! میرے دوست
تم مل جاتے ہو کسی نہ کسی موڑ پر
اور آسان کر دیتے ہو سفر
تمہارے پیر کی انگلیاں
جمی رہیں پاتال کے بھیدوں پر
قائم رہے میرے دوست
تمہارے تنے کی متانت اور قوت
دھوپ اور بارش تمہیں اپنے تحفوں سے نوازتی رہے
تم بہت پروقار اور سادہ ہو
میرے تھیلے کو جاننا چاہتے ہو
ضرور.... یہ لو میں اسے کھولتا ہوں
روٹیاں دعائیں اور نظمیں
میرے پاس اس سے زیادہ کچھ نہیں
ایک شاعر کے پاس اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا
دوست دکھ دینا تم نے سیکھا ہی نہیں
تم نے نہ تو مجھ سے شاعری کا مطلب پوچھا
اور نہ کبھی میرے مطالعے پر شک کیا
ایسا ہی ہونا چاہئے دوستوں کو
اگر میرے پاس اک اور زندگی ہوتی تو
تو میں اپنی پہلی زندگی تمہاری جڑوں پر گزار دیتا
مگر میں گھر سے خاندان بھر خوشیوں کے لیے نکلا ہوں
اور وہاں میرا انتظار کیا جا رہا ہے
تم نے میرے دوست
ہاں تم نے
بہت کچھ سکھایا ہے مجھے
مثلاً زمین اور آسمانی بجلی
اور ہوا
اور انتظار
اور دوسروں کے لیے زندہ رہنا
بہت قیمتی ہیں یہ باتیں
میں کیا دے سکتا ہوں اس فیاضی کا جواب
میرے پاس تمہارے لیے
ایک روٹی اور دعا ہے
روٹی: تمہاری چیونٹیوں کے لیے
دعا تمہارے آخری دن کے لیے
مجھے معلوم ہے تم نے کلہاڑی کے مصافحے
اور آری کی ہنسی سے کبھی خوف نہیں کھایا
مگر تم روک نہیں سکتے انہیں
کوئی بھی نہیں روک سکتا
خدا کرے
خدا کرے تمہاری شاخوں سے ایک جھونپڑی بنائی جائے
بازوؤں کے گھیرے میں نہ آنے والے تمہارے
تنے کی لکڑی
بہت کافی ہے
دو پہیوں اور ایک کشتی کے لیے
دوست: ہم پھر ملیں گے
مسافر اور چھکڑا
مسافر اور کشتی
کہیں نہ کہیں ہم پھر ایک ساتھ ہوں گے
کہیں نہ کہیں
ایک ساتھ.... ہم سامنا کریں گے
ہوا کا اور راستوں کا
مسرت اور موت کا....
نظم
درخت میرے دوست
ثروت حسین