EN हिंदी
ڈریکولا | شیح شیری
Daracula

نظم

ڈریکولا

محمد علوی

;

کمرے کی دیوار توڑ کر میرے سامنے آیا تھا
اپنا سینہ چیر کے مجھ کو اپنا خون پلایا تھا

چمگادڑ سا اڑا کھلی کھڑکی سے باہر پہنچا تھا
آنکھ سے اوجھل ہوا نہیں اور میرے اندر پہنچا تھا

اس کے لیے میں روز رات کو خون چوس کر لاتا ہوں