EN हिंदी
دار الامان کے دروازے پر | شیح شیری
dar-ul-aman ke darwaze par

نظم

دار الامان کے دروازے پر

زاہد مسعود

;

مجھے زلزلہ زدہ علاقے سے اٹھایا گیا تھا
یا شاید

سیلاب زدہ علاقے سے
مگر میرا کوئی وارث اب اس دنیا میں باقی نہیں ہے

میری کم عمری
میری واحد کفیل ہے

اور
اچھی شکل ہی اب میری زندگی کی ضامن ہے

میری بے لباسی
لباس سے زیادہ قیمتی اور با معنی ہے

میں نے کئی بار
عدالتوں میں پیشی کے دوران اپنے بے آسرا ہونے کی

دہائی دی
مگر ہر بار

میرے انگوٹھے پر خامشی کی سیاہی لگا دی گئی
مجھے ان مردوں کے نام یاد نہیں

جو
مجھے شہر شہر اور گاؤں گاؤں لیے پھرے

مگر مجھے
اس عورت کی آنکھیں یاد ہیں

جس نے مجھے دیکھ کر آنسو بہائے تھے
اور

پھر یہاں چھوڑ کر چپ چاپ چلی گئی تھی!