EN हिंदी
داغؔ | شیح شیری
dagh

نظم

داغؔ

میکش اکبرآبادی

;

ہے اب تک سحر سا چھایا تری جادو نوائی کا
دل اردو پہ اب تک داغ ہے تیری جدائی کا

زبان شعر سے اب بھی تری آواز سنتا ہوں
جو نکلا تھا تری مضراب سے وہ ساز سنتا ہوں

تغزل کو تری رنگیں نوائیں یاد ہیں اب تک
ترے نغموں سے دل کی بستیاں آباد ہیں اب تک

دلوں کو اب بھی چمکاتی ہے شمع آرزو تیری
لب تحریر پر اب تک ہے شیریں گفتگو تیری

ترے جذبات میں اب تک صداقت جگمگاتی ہے
تری گفتار کی شوخی دلوں کو گدگداتی ہے

نیاز و ناز کی محفل میں تیرا نام رہتا ہے
ترے مستوں کے آگے اب بھی تیرا جام رہتا ہے

تری رنگینیوں میں سادگی کی شان ہوتی ہے
ترے افکار کی دنیا بھی شعرستان ہوتی تھی

ترے نغمے سکوں پرور تھے ارباب محبت کے
سدا بے داغ دیکھا ہے ترے دامان فطرت

چھلکتی تھیں ترے دل کی ادائیں بھی نگاہوں سے
بلا کا درد ہوتا تھا تری خاموش آہوں میں

تو بندہ تھا محبت کا محبت تھی ترے دل میں
سمندر موجزن رہتا تھا اس چھوٹے سے ساحل میں

ترے لب پر وہی آتا تھا جو ہر دل میں ہوتا تھا
وہ بن جاتا تھا شاعر جو تری محفل میں ہوتا تھا

فصیح الملک تھا جان فصاحت تیری باتیں تھیں
قیامت جس پہ دم دے وہ قیامت تیری باتیں تھیں

تری گفتار میں ہم نے مذاق زندگی دیکھا
ترے سازوں میں دل کے سوز کا مفہوم تھا گویا

تری ہستی کو راز دو جہاں معلوم تھا گویا
فرشتوں کا تقدس تھا ترے حسن تکلم میں

ترے آنسو میں سوز دل تھا یا شعلہ تھا شبنم میں
زباں کو حور و غلماں نے تری کوثر سے دھویا تھا

خدا نے بحر الفت میں تری الفت کو کھویا تھا
عنادل بھی بڑھے تیری طرف دامن کو پھیلائے

محبت کی زباں سے تو نے جس دم پھول برسائے
فضا کو کر دیا رنگین اپنی نغمہ خوانی سے

گلوں میں پھونک دی روح‌ تبسم گل فشانی سے
ترے نغمے بہے جب نکہت گل کے سفینے میں

تو لالے نے بٹھایا لا کے تجھ کو اپنے سینے میں
ہر اک درد آشنا دل میں رکھا تجھ کو محبت نے

بٹھایا چاند کے ماتھے پہ تجھ کو دست قدرت نے
زمین شعر نے پایا تھا اوج آسماں تجھ سے

زباں کا لطف تھا اے بلبل ہندوستاں تجھ سے
پیمبر تھا سخن کا تو ترے نغموں پہ جھومیں گے

ہم اپنے دیدۂ دل سے تری تربت کو چومیں گے
رہیں گے حشر تک باقی ترے نغمے نہیں فانی

بجا ہے تجھ کو کہتے ہیں جو ہم تلمیذ رحمانی
ترے جذبات کے پر کیف سیلابوں میں بہتے ہیں

حقیقت آشنا تجھ کو جہاں استاد کہتے ہیں
جہان آرزو میں اب بھی حال و قال تیرا ہے

سخن کی مملکت میں آج تک اقبال تیرا ہے
سخن فہموں کے دل میں اب بھی تیری یاد باقی ہے

غزل کے مے کدہ جب تک ہے قائم تو ہی ساقی ہے
دکن میں ذوق تھا ذوق سخن محبوب تھا تجھ کو

ہمیں معلوم ہے ملک دکن محبوب تھا تجھ کو
دکن کو آنے والے بس گیا ملک دکن میں تو

کہ بلبل تھا بنایا آشیاں اپنا چمن میں تو
قیامت تک نہ بھولیں گے تجھے تیرے وطن والے

کہیں بلبل کے نغمے بھول جاتے ہیں چمن والے
دل بیتاب کے بربط پہ نغمہ درد کا گایا

تغزل سے ہماری محفلوں کو تو نے گرمایا
ترے احسان کے گن گائے گا جوش وفا کوشی

دکن والوں کی فطرت میں نہیں احساں فراموشی
کلیجہ تھام کر اپنا ترے اشعار گائیں گے

دکن کی وادیوں میں ہم ترے نغمے بسائیں گے
عقیدت آفریں گل تیری تربت پر چڑھائیں گے

ترے ہر شعر کو ہم اپنی آنکھوں سے لگائیں گے