EN हिंदी
دائرہ | شیح شیری
daera

نظم

دائرہ

کیفی اعظمی

;

روز بڑھتا ہوں جہاں سے آگے
پھر وہیں لوٹ کے آ جاتا ہوں

بارہا توڑ چکا ہوں جن کو
انہیں دیواروں سے ٹکراتا ہوں

روز بستے ہیں کئی شہر نئے
روز دھرتی میں سما جاتے ہیں

زلزلوں میں تھی ذرا سی گرمی
وہ بھی اب روز ہی آ جاتے ہیں

جسم سے روح تلک ریت ہی ریت
نہ کہیں دھوپ نہ سایہ نہ سراب

کتنے ارمان ہیں کس صحرا میں
کون رکھتا ہے مزاروں کا حساب

نبض بجھتی بھی بھڑکتی بھی ہے
دل کا معمول ہے گھبرانا بھی

رات اندھیرے نے اندھیرے سے کہا
ایک عادت ہے جئے جانا بھی

قوس اک رنگ کی ہوتی ہے طلوع
ایک ہی چال بھی پیمانے کی

گوشے گوشے میں کھڑی ہے مسجد
شکل کیا ہو گئی مے خانے کی

کوئی کہتا تھا سمندر ہوں میں
اور مری جیب میں قطرہ بھی نہیں

خیریت اپنی لکھا کرتا ہوں
اب تو تقدیر میں خطرہ بھی نہیں

اپنے ہاتھوں کو پڑھا کرتا ہوں
کبھی قرآں کبھی گیتا کی طرح

چند ریکھاؤں میں سیماؤں میں
زندگی قید ہے سیتا کی طرح

رام کب لوٹیں گے معلوم نہیں
کاش راون ہی کوئی آ جاتا