EN हिंदी
کرفیو میں مشاعرہ | شیح شیری
curfew mein mushaera

نظم

کرفیو میں مشاعرہ

خالد عرفان

;

کیا جانے اس ظریف کے کیا دل میں آئی تھی
کرفیو میں جس نے محفل شعری سجائی تھی

اللہ ایسا ذوق جہنم میں ڈال دے
کرفیو میں شاعروں کو جو گھر سے نکال دے

ایسے میں جب کہ شہر کے سب راستے ہوں بند
سڑکوں پہ آ گئے تھے یہ با ذوق شر پسند

ایسے میں جب کہ گھر سے نکلنا محال تھا
لیکن یہ شاعروں کی انا کا سوال تھا

شعری محاذ خانۂ شاعر سے دور تھا
کعبہ میں حاجیوں کو پہنچنا ضرور تھا

شاعر رواں تھے شعر کے چاقو لیے ہوئے
دل میں خیال خدمت اردو لیے ہوئے

زور قلم کے ساتھ سپاہ ریاض تھی
قانون ہاتھ میں تھا بغل میں بیاض تھی

گلیوں میں قتل و خوں تھا سڑک پر فساد تھا
شاعر بزور فکر شریک جہاد تھا

کیسی نکل رہی تھی صدا گن مشین سے
جیسے کسی کو داد ملے سامعین سے

شاعر بیاض لائے تھے صندوق کی طرح
مصرعے اگل رہے تھے وہ بندوق کی طرح

جب فائرنگ اہل سخن کی ہوئی تمام
یہ خدمت ادب کا پولس نے صلہ دیا

کچھ شاعروں کو روڈ پہ مرغا بنا دیا
کچھ کہنہ مشق بھی تھے سجود و رکوع میں

جبراً انہیں پڑھایا گیا تھا شروع میں
طرحی مشاعرے کا سماں دے رہے تھے وہ

اک مصرع طرح پہ اذاں دے رہے تھے وہ
کچھ شاعروں کو نغمہ سرائی کی فکر تھی

صدر مشاعرہ کو رہائی کی فکر تھی
جب شاعروں کے ہاتھ شریک دعا ہوئے

کرفیو کا وقت ختم ہوا تب رہا ہوئے
سب اپنے اپنے گھر گئے اس ہاؤ ہو کے بعد

شاعر عظیم ہوتا ہے ہر کرفیو کے بعد