EN हिंदी
سرکس | شیح شیری
circus

نظم

سرکس

علی عمران

;

کرتب کا بس شوق ہوا تھا
میرے بس کا کام نہیں ہے کب سوچا تھا

بن سوچے سمجھے میں یوں ہی چل نکلا تھا
چلتے چلتے مجھ کو یہ احساس نہیں تھا

چلنا یوں دشوار بھی ہو سکتا ہے اک دن
خوف کوئی تلوار بھی ہو سکتا ہے اک دن

میرے پاؤں کسی لمحے شل ہو سکتے ہیں
آج نہیں ہوں گے شاید

کل ہو سکتے ہیں
کب تک اپنی سانس کی طرح میں لٹکوں گا

اپنے اندر کی تاریکی میں بھٹکوں گا
دل ہے ایک سرے پر

جاں ہے ایک سرے پر
نہ ہے ایک کنارے ہاں ہے ایک سرے پر

کب تک کرتب اور چلے گا کب میں نیچے آؤں گا
یا میں یوں ہی لٹکے لٹکے

سانس کو روکے مر جاؤں گا
میرا مالک لاؤڈ اسپیکر منہ میں لیے چلاتا ہے

گرنا نہیں ہے گرنا نہیں ہے
مجھ کو یاد دلاتا ہے

میرے پیر جو پہلے شل تھے
خوف نے پتھر کر ڈالے ہیں

میری آنکھ سے خوں رستا ہے
اور سانسوں میں چھالے ہیں

نیچے سیٹی مارتے لوگوں سے تالی بجوانی ہے
آنکھیں بھی بند رکھنی ہیں گر اپنی جان بچانی ہے

ایک سرے پر میں ہوں دوجا دور دکھائی دیتا ہے
میرے پاؤں تلے شعلوں کا

شور سنائی دیتا ہے
نیچے گرا تو عین یقیں ہے

دہکی آگ میں جلنا ہوگا
خوف میں گم ہوں جانے کب سے سوچ رہا ہوں

مچھلی کی اس ڈور پہ آخر
کب تک مجھ کو چلنا ہوگا