خواب ہی تو ملے ہیں ہمیں روٹی کے خواب تعلیم کے خواب
حکمرانوں نے دکھائے آزادی کے بعد نئی تنظیم کے خواب
پینسٹھ سال کے بعد بھی ہم کرتے ہیں ان کی قدم بوسی
حکمرانوں نے کیا گھول کر دئے ہیں اس یقیں کے خواب
نا سڑک نا بجلی نا پانی نا روزگار ہے میسر
ملک کے اکیسویں صدی میں پہنچنے کے یہ حسین سے خواب
مت آواز اٹھا مت مانگ انصاف جرا سا ڈر پیارے
ورنہ تو دیکھے گا حوالات میں بیٹھ کے ننگی زمین پے خواب
آنکھوں میں بھر لے حقیقت کے کانچ کے ٹکڑے تاکہ کھلی رہیں
جاگتے ہوئے طے کریں ہم خود کے لئے بہترین سے خواب
نظم
چبھتے خواب
مادھو اوانہ