میرے تن پر بھوک اگی تھی
میری آنکھیں ننگی تھی
اور میرے آنگن میں ہرجا
غربت بھوک اور محرومی کے
پھول اگے تھے
میرے کانٹے ہاتھوں نے
ان پھولوں کو توڑنا چاہا
اور ہم سایے کے گھر سے
جس کے گھر میں
سونے چاندی اور پیسوں کی
دیواریں تھیں
اپنے نے کچھ خوشیاں چن لیں
چور چور چور چور
کچھ آوازیں
پھر زنجیریں
پھر میرے ہی گھر کی مانند
بدبو دار اندھیرا کمرہ
جس کے باہر
مجھ جیسے بے چہرہ لوگ
میرے لئے پہرے پہ کھڑے تھے
نظم
چور
نیلما سرور