EN हिंदी
چور دروازہ کھلا رہتا ہے | شیح شیری
chor darwaza khula rahta hai

نظم

چور دروازہ کھلا رہتا ہے

زاہد امروز

;

میرے خواب زخمی ہوئے
تو دنیا کے سارے ضابطے جھوٹے لگے

میں نے زندگی کے لیے بھیک مانگی
مگر آباد لمحوں کی پوجا کے لیے

وقت کبھی میرے لیے نہ رکا
مجھے ویسٹ پن سے اپنائیت محسوس ہوئی

لوگ کاغذوں سے بنے کھلونے تھے
جنہیں ہمیشہ خلاف مرضی ناچنا پڑا

بھیگے ساحلوں کی ہوا میں خون ہی خون تھا
جھیلوں کے آباد کنارے مجھے بنجر کر گئے

پانی پر تیرتا منظر دغاباز نکلا
میں مخالف سمت بہتی کشتیوں میں

بہ یک وقت سوار ہو گیا
بادل برس گئے

تو آسمان پر دھواں رہ گیا
میں نے خود کو دھویں میں اڑایا

اور مصروفیت سے سودا کر لیا