EN हिंदी
چور بازار | شیح شیری
chor-bazar

نظم

چور بازار

عزیز قیسی

;

کاٹھ کے بیل مرد، شیشے کی
پتلیاں عورتیں، پسینے کی

بوندیاں، گل مہک شمیم بدن
چاک دل زخم جیب و پیراہن

کار، لاری، کواڑ آنکھیں، فن،
لعل و الماس آہن و فولاد

قہقہے، چہچہے، فغاں، فریاد
سوئی، ہاتھی، اناتھ، بچے، دل

تشنگی، تلخیاں، تجلی، دید
کون سی آس، کون سی امید

کون سی جنس چاہئے تجھ کو
ہر ضرورت کا مال حاضر ہے

مال یہ سب کہاں سے آتا ہے
بیچتا کون، کون لاتا ہے

کس سے کس نے اسے خریدا ہے
کتنے داموں یہ اٹھتا جاتا ہے

بمبئی کی عریض سڑکوں پر
جب کوئی تازہ جنس دنیا کی

کوئی نکھرا حسین رخ، میں نے
کوئی لہکی ہوئی جبیں دیکھی

یہی دل میں خیال آیا ہے
تجربہ کار کوئی سوداگر

کوئی دلال یا کوئی سارق
سر بازار اس کو لایا ہے

جانے کس روز بیچ ڈالے گا
وہ بھی ایسے کہ اس کے داموں کا

دوسرے ہاتھ کو پتہ نہ چلے
جانے کس روز کتنے دروازے

چھو کے یہ جنس بے بہا آخر
کسی فٹ پاتھ کے کنارے پر

''لاٹ کی لاٹ'' بن کے اٹھ جائے
زندگی ہے کہ مال سرقے کا

چور بازار ہے کہ دنیا ہے!