گلشن میں رت نئی ہے
ہر سمت بے خودی ہے
ہر گل پہ تازگی ہے
مسرور زندگی ہے
سرچشمۂ خوشی ہے
چھبیس جنوری ہے
ہر سو خوشی ہے چھائی
سب نے مراد پائی
پھر جنوری یہ آئی
یوم سرور لائی
ساعت مراد کی ہے
چھبیس جنوری ہے
آنکھوں میں رنگ نو ہے
باطل سے جنگ نو ہے
ساز اور چنگ نو ہے
ہر در پہ سنگ نو ہے
پر کیف زندگی ہے
چھبیس جنوری ہے
میں گنگنا رہا ہوں
مستی میں گا رہا ہوں
خوشیاں منا رہا ہوں
عالم پہ چھا رہا ہوں
دل محو بے خودی ہے
چھبیس جنوری ہے
ہندوستان خوش ہے
ہر پاسبان خوش ہے
ہر نوجوان خوش ہے
سارا جہان خوش ہے
ایک جوش سرمدی ہے
چھبیس جنوری ہے
نظم
چھبیس جنوری
کنولؔ ڈبائیوی