گاڑیوں کے بہاؤ میں بہتے ہوئے شور کی گرد
میرے دھواں بنتے چہرے پہ جمنے لگی ہے
میں پہلے ہی جمتے ہوئے خون کی
گلتی سڑتی ہوئی
خواہشوں کی کراہت سے سانسوں کی قے
کرنے کی ایک سعی مسلسل میں مصروف ہوں
میرا دل تتلیوں کی رفاقت کی ضد کر رہا ہے
مگر میں اسے ہڈیوں سے تنے جال سے کیسے باہر نکالوں
کڑی آزمائش ہے لیکن
چلو مسکرانے کی بیکار خواہش جگائیں
ہنسی کا پیالہ۔۔۔
چلو چہرے کی جھریوں میں انڈیلیں
اگر ہم کسی طرح بھی ہنس نہ پائیں
تو اک دوسرے کے غلاظت بھرے چہرے کو نوچ ڈالیں
اگر ہم سے یہ بھی نہ ہو پائے تو رو ہی لیں
شاید اس طرح ہم
اپنے گالوں پہ جمتی ہوئی
گرد کی تہہ کو دھو لیں
نظم
چہرے کی گرد
قاسم یعقوب