چراغ نے پھول کو جنم دینا شروع کر دیا ہے
دور بہت دور میرا جنم دن رہتا ہے
آنگن میں دھوپ نہ آئے تو سمجھو
تم کسی غیر آباد علاقے میں رہتے ہو
مٹی میں میرے بدن کی ٹوٹ پھوٹ پڑی ہے
ہمارے خوابوں میں چاپ کون چھوڑ جاتا ہے
رات کے سناٹے میں ٹوٹتے ہوئے چراغ
رات کی چادر پہ پھیلتی ہوئی صبح
میں بکھری پتیاں اٹھاتی ہوں
تم سمندر کے دامن میں
کسی بھی لہر کو اتر جانے دو
اور پھر جب انسانوں کا سناٹا ہوتا ہے
ہمیں مرنے کی مہلت نہیں دی جاتی
کیا خواہش کی میان میں
ہمارے حوصلے رکھے ہوئے ہوتے ہیں
ہر وفادار لمحہ ہمیں چرا لے جاتا ہے
رات کا پہلا قدم ہے
اور میں پیدل ہوں
بیساکھیوں کا چاند بنانے والے
میرے آنگن کی چھاؤں لٹ چکی
میری آنکھیں مرے ہوئے بچے ہیں
اور پھر میری ٹوٹ پھوٹ
سمندر کی ٹوٹ پھوٹ ہو جاتی ہے
میں قریب سے نکل جاؤں
کوئی سمت سفر کی پہچان نہیں کر سکتی
شام کی ٹوٹی منڈیر سے
ہمارے تلاطم پہ
آج رات کی ترتیب ہو رہی ہے
مسافر اپنے سنگ میل کی حفاظت کرتا ہے
چراغ کمرہ ناپتا ہے
اور غم میرے دل سے جنم لیتا ہی ہے
زمین حیرت کرتی ہے
اور ایک پیڑ اگا دیتی ہے
نظم
چراغ جب میرا کمرہ ناپتا ہے
سارا شگفتہ