چند لمحے جنہیں اک لغزش پا نے میری
کہیں ماضی کے اندھیروں میں کچل ڈالا تھا
چوٹ کھائی ہوئی ناگن کی طرح لہرا کر
میرے احساس کے ہر گوشے پہ چھا جاتے ہیں
میری آنکھوں سے مے خواب اڑا جاتے ہیں
رات بھر کے لیے دیوانہ بنا جاتے ہیں
خون ہو جاتا ہے جب سوزش پنہاں سے بھڑکتا ہوا دل
تیرنے لگتا ہے رگ رگ میں لہو ہو کے دھڑکتا ہوا دل
کپکپاتے ہوئے ہونٹ
تھرتھراتی ہوئی نبض
ٹمٹماتے ہوئے آنکھوں کے دیے
گود میں سیل فراواں کو لیے
ایسی حالت میں کوئی کیسے جئے کیسے جئے؟
نظم
چند لمحے
خورشید رضوی