کون ہے وہ
کچھ نہیں جانتے
دیکھ سکتے نہیں
دنیا کی دیواروں میں
چنے ہوئے پتھر
کون میرے خوابوں میں
آسمانوں سے اترتا ہے
جادو زدہ لوگوں کو
دیواروں سے نکال کر
زندہ دلوں کی بستیاں آباد کرنا چاہتا ہے
مگر یہ لوگ کیسے ہیں
بضد ہیں
دلوں تک جاتے رستے بند رکھنے پر
آنکھوں زبانوں اور دماغوں کو
دیواروں میں قید رکھنے پر مصر ہیں
میں حیران ہوں
کہ دیواریں بھی چلتی ہیں
کچلتی جاتی ہیں
رعونت سے
سبھی معصوم جذبوں کو
کتابوں سے امڈتی روشنی کو
دلوں میں نفرتیں بھر کر
اٹھا کر سر یہ چلتے ہیں
رعونت سے
سجا کر اپنے ماتھے پر
نشاں سجدوں کے
سب سے فخریہ کہتے ہیں
ہم ہی متقی ہیں اور زاہد ہیں
مگر ان کی قناعت گریہ زاری زہد و تقویٰ
دکھاوا ہے بناوٹ اور سجاوٹ ہے
یہ جس کے نام پر دھوکے بانٹتے پھرتے ہیں
مسجدوں اور بازاروں میں
اسے سجدوں سے کیا مطلب
اسے تو دل بسانے ہیں
اور اس جادو زدہ بستی کو جنت میں بدلنا ہے
نظم
چلتی پھرتی دیواریں
میمونہ عباس خان