چلو مسافر، اداس شاموں کی رہ گزر میں
ستارے، ڈھونڈیں
چھلکتی آنکھوں میں زندگی کے جو بچ گئے ہیں وہ خواب ڈھونڈیں
بھٹکتی گلیوں میں آبلوں کے گلاب دیکھیں
پہاڑ سوچوں میں سبز رنگوں کے خواب دیکھیں
چلو مسافر
نشان منزل جو خواب سا ہے، جو آرزؤں کا حادثہ ہے
اسی کے رستے میں کہکشائیں بکھیر دیں ہم
بقا کے رستے میں خیمہ زن ہیں، خطا کے لشکر، فنا کے لشکر
چلو مسافر فنا کے گھر سے
بقا کی منزل اٹھا کے لائیں گے
حکایتوں میں حقیقتوں کا مزاج بھر دیں
کسی کے گھر میں
اندھیرے گھر میں
چراغ رکھ دیں
چھلکتی آنکھوں میں خواب رکھ دیں
نظم
چلو مسافر
خالد ملک ساحلؔ